نئی دہلی یکمانومبر( پریس ریلیز؍ایس او نیوز) سپریم کورٹ نے آج آسام شہریت اور این آرسی سے جڑے معاملوں پر سماعت کرتے ہوئے مثاثرین کو بڑی راحت دیتے ہوئے ثبوت کے دائرہ سے باہر نکالے گئے پانچوں دستاویزبحال کردیئے ، ساتھ ہی جمعیۃعلماء ہند کی وکلاء کی طرف سے عدالت میں پانچ اہم مطالبے پیش کئے گئے ، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس ایف آر نریمن کی دورکنی مانیٹرنگ بینچ میں سماعت کا آغاز ہوا تو جمعیۃعلماء ہند اور آمسو کی طرف سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل ، سینئر ایڈوکیٹ سلمان خورشید ، سینئر ایڈوکیٹ اندراجے سنگھ اور وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی پیروی کے لئے پیش ہوئے۔کارروائی شروع ہوئی تو سب سے پہلے عدالت نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلاسے دریافت کیا کہ ان پانچ دستاویزات کے علاوہ کیا وہ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں ، اس پرمسٹر ہزیلا نے کہا کہ ہم نے ان دستاویز ات سے متعلق جو رپورٹ پیش کی ہے اس پر اپنی بات رکھنا چاہیں گے، اس پر عدالت نے فریقین کو مخاطب کرتے ہوئے وہی سوال دہرایا کہ کیا وہ ان دستاویزات کے علاوہ بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ، اس پر جمعیۃعلماء ہند کے سینئر وکیل مسٹرکپل سبل نے کہا کہ آبجکشن فائل کرنے کا طریقہ شہریت کے قانون 1955کی دفعہ 17کی روسے صحیح نہیں ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ 31؍اگست 2015کے بعد کے متعلقہ دستاویزات کو بھی پیش کرنے کی اجازت مل نی چاہئے اور جس طرح سے 14سال کے بچوں کو والدین کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے اسی طرح اس کے دائرہ میں 18برس تک کے بچوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے اس پر فاضل عدالت نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر کو اس بابت غورکرنے کو کہا ، آبجکشن کے تعلق سے مسٹرکپل سبل کی طرف سے پیش کی گئی دلیل پر عدالت نے کہا کہ اسٹیٹ کوآڈینیٹر کی رپورٹ کے مطابق اب تک تقریبا 26ہزار کلیم داخل ہوچکے ہیں مگر آبجکشن کی تعداد محض 54ہیں ، بعد ازاں دائرہ کارسے باہر نکالے گئے دستاویزات کو لیکر عدالت نے اسٹیٹ کوآڈینیٹر مسٹر پرتیک ہزیلا سے کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ ان دستاویز کی آڑ میں غیر حقیقی شہری بھی این آرسی میں اپنا نام شامل کراسکتے ہیں ، اس طرح ان کا غلط استعمال ہوسکتا ہے لیکن آپ کی یہ بات سراسر ناقابل قبول ہے ، قابل غور بات تو یہ ہے کہ ان دستاویزات سے متعلق مسٹر پرتیک ہزیلاکی رپورٹ پر فاضل ججوں نے ناراضگی کا اظہاربھی کیا اور کہا کہ قانون کی یہ منشاء ہزگز نہیں ہے کہ کسی کوپریشان کیا جائے ، عدالت نے ان سے یہ بھی کہا کہ آپ کی یہ دلیل کہ ان دستاویز ات کے سہارے غیر حقیقی باشندے بھی این آرسی میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دستاویزات کی عدم شمولیت سے کہیں ریاست کے حقیقی شہری این آرسی سے باہر نہ رہ جائیں ، چنانچہ عدالت نے ان دستاویزات کو بحال رکھنے کا فیصلہ دیا ، اس طرح اب شہریت کے لئے پہلے ہی کی طرح 15دستاویز پیش کرنے کی شہریوں کو اجازت ہوگی ، اس ضمن میں عدالت نے یہ بھی کہا کہ قانونی طورپر ہر درخواست کی جانچ پڑتال ہونی چاہئے تاکہ کوئی غیر حقیقی شہری این آرسی میں شامل نہ ہوسکے ، اس کے ساتھ ہی عدالت نے کلیم اور آبجکشن کی تاریخ ایک ماہ آگے بڑھاکر 25؍دسمبر کردی ہے ، عدالت نے آج ایک بڑی ریایت یہ دی کہ اگر کوئی کسی دوسری ریاست کا رہنے والا ہے اور آسام میں جاکر آبادہوگیا ہے تو وہ شہریت کے ثبوت میں اپنی آبائی ریاست کا کوئی ثبوت پیش کرسکتا ہے اور یہ قابل قبول ہوگا ، دوسرے نئے طریقہ کارمیں کہا گیا تھا کہ چونکہ این آرسی میں درخواست دینے کی تاریخ 31؍اگست ہے اس لئے شہریت کے ہر قسم کے دستاویز 31؍اگست 2015کے ہی منظورہوں گے ، گزشتہ 28؍گست کی سماعت میں جمعیۃعلماء ہند اور دیگر فریقین کے وکلاء نے اس پر اپنا اعتراض درج کراتے ہوئے عدالت سے مطالبہ کیا تھا کہ کٹ آف تاریخ بڑھاکر اس تاریخ سے کردی جائے جس تاریخ سے کلیم اور آبجکشن کا عمل شروع ہوا ، عدالت نے پرتیک ہزیلاکو اس پر غورکرنے کو کہا ہے، دائرہ کار سے نکالے گئے دستاویزات کے حوالہ سے گزشتہ سماعت کے دوران جمعیۃعلماء ہند کے وکلاء نے دلیل پیش کی تھی کہ یہ دستاویز سب رول A4حصہ ہے ، انہوں نے یہ دلیل بھی دی تھی کہ 1951کی این آرسی اور 1971تک کی ووٹرلسٹ خصوصی طورپر A4کی بنیادپر ہی تیارکی گئی ہے اس لئے ان کا نکالا جانا قانونی اور اصولی طورپر غلط ہوگا ،امید افزابات یہ ہے کہ عدالت نے آج ان دلائل کو منظورکرتے ہوئے ان دستاویزات کی بحالی کے حق میں فیصلہ صادر کیا ۔جن دستاویزات کو آج عدالت نے بحال کیا ان کی تفصیل یہ ہے (1)۔این آرسی کا1951ء اقتباس (2)۔24/مارچ1971ء سے پہلے کی الیکٹرورل رول کی تصدیق شدہ کاپی/اقتباس (3)۔1971 سے پہلے ریاست کے باہر کے کسی رجسٹرڈ اتھارٹی سے جاری کیا گیا شہریت کا سرٹیفیکٹ(4)۔1971ء سے پہلے کا ری فیوجی رجسٹریشن سرٹیفیکٹ(5)۔1971ء سے پہلے ایشو کیا گیا راشن کارڈ حکومتی مہر اور دستخط ۔متاثرین اب 15؍دسمبر سے 15؍جنوری تک اپنے کلیم اور آبجکشن داخل کرسکتے ہیں ، بعدازاں اسٹیٹ کوآڈینیٹر کو عدالت نے ہدایت کی کہ وہ 15؍جنوری سے یکم فروری تک ان درخواستوں کی چانچ پڑتال کا کام مکمل کریں اور نوٹس جاری کرکے سماعت کا مرحلہ مکمل کرکے اپنی رپورٹ فاضل عدالت کو پیش کریں، اس کے لئے عدالت نے کوئی تاریخ طے نہیں کی البتہ عدالت نے کہا کہ اس پورے عمل کے مکمل ہونے کے بعد وہ کوئی فیصلہ دیگی ۔
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے عدالت کے فیصلے کو خوش آئند قراردیتے ہوئے کہا کہ آسام شہریت تنازعہ کے حل کے تعلق سے یہ فیصلہ ایک بڑی پیش رفت ہے ، اور ہم سمجھتے ہیں کہ آنے والے ونون میں جو لوگ این آرسی میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں انشاء اللہ وہ لوگ بھی اپنے ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے انشاء اللہ ، انہوں نے کہا کہ اس فیصلہ سے مثاثرین کو بہت مددملے گی اور جس طرح نکالے گئے دستاویزات کو بحال کیا گیا ہے اس سے لوگوں کو اب ثبوت پیش کرنے میں آسانی ہوگی ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کی اس فیصلے سے ایک بارپھر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس مسئلہ کو لیکر عدالت بہت حساس اورسنجیدہ ہے ، اسٹیٹ کوآدینیٹر کی مخالفت کے باوجود نکالے گئے دستاویزات کی بحالی اس کا ثبوت ہے ، مولانامدنی نے ایک بارپھر آسام کے تمام متاثرین سے یہ اپیل کی کہ وہ کوتاہی نہ برتیں اور این آرسی کے مراکز پر جاکر معینہ مدت کے اندراپنی درخواستیں جمع کروادیں ، جمعیۃعلماء ہند اور جمعیۃعلماء آسام کے وکلاء کی ٹیم اور رضاکاران مراکز پر موجودرہیں گے جہاں وہ متاثرین کی مذہب سے بالاتر ہوکر انسانیت کی بنیادپر ہر طرح کی قانونی امدادفراہم کریں گے ، انہوں نے آخر میں کہا کہ آئندہ بھی جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوگی جمعیۃعلماء ہند متاثرین کی مددکے لئے ہمیشہ کی طرح موجودرہے گی ۔
۔آج کی عدالتی کارروائی کے دوران صدرجمعیۃعلماء آسام، مولانا مشتاق عنفر، جناب رقیب الحسن نائب صدرجمعیۃعلماء آسام اپنی ریاستی یونٹوں کے ساتھ موجودتھے ،اس سے ایک روز قبل مولانا مشتاق عنفر اور نائب صدرجمعیۃعلماء آسام رقیب الحن نے وکلاء کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں ریاست کی تازہ صورت حال سے روشناس کرایا ، اس موقع پر مولانا مشتاق عنفر صدرجمعیۃعلماء آسام نے کہا کہ ہم نے آسام کے متاثرین کی مددکے لئے وکلاء کا ایک پینل بھی تشکیل دیدیا ہے جو آبجکشن اور کلیم کے عمل کے دوران تمام مراکز پر جمعیۃعلماء کے ورکرس کے ساتھ متاثرین کی قانونی مددکے لئے موجودرہ تے ہیں ۔